سفید بالوں کو کالا کرنے کا مجرب اور بے ضرر طریقہ
سفید بال انسان کی شخصیت میں ایک واضح تبدیلی لے آتے ہیں۔عام طور پر سفید بال ہی لوگوں کی عمر کے بارے میں سب سچ سچ بتادیتے ہیں۔ جس کے سبب خود اعتمادی کے خاتمے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن بڑھتی ہوئی مصروفیت، پریشانی، خون اور وٹامن کی کمی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب اب سفید بال بڑھاپے کے محتاج نہیں بلکہ آج کل نوجوان نسل بھی ان سفید بالوں سے بہت پریشان نظر آتی ہے۔ زیادہ تر لوگ آج کل سفید بالوں کے خاتمے کے لیے بازار میں دستیاب کلر سے مدد حاصل کررہے ہیں، لیکن ان کلرز کے بارے میں یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ ان میں موجود کیمیکل بالوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کلر مستقل حل بھی نہیں بلکہ آپ کو لازمی طور پر ہر ماہ ان کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن آپ پریشان نہیں ہوں کیونکہ ہمارے پاس اس مسئلے کا آسان اور مستقل حل موجود ہے۔ یہ قدیم زمانے کا نسخہ ہے جو آلو کے چھلکوں کے پانی سے سر دھونے کا ہے۔یہ سفید بالوں کو ختم کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے اور آپ کے بالوں کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ آلو کے چھلکے میں موجود اسٹارچ کی مقدار آپ کے سفید بالوں کو کالا کردیتا ہے۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کس طرح یہ مرکب بنایا جائے تاکہ آپ باآسانی بالوں پر لگا سکیں۔
.....مرکب کے اجزا: آلو کے چھلکے لیونڈر کا تیل
مرکب بنانے کا طریقہ: تین سے چار آلو کو چھیل کر اْس کے چھلکوں کو ٹھنڈے پانی میں کچھ دیر ڈال کر رکھ دیں۔پھر ایک پتیلے میں اْسے ابالیں۔جب پانی ابل جائے تو دھیمی آنچ پر تھوڑی دیر چھلکوں کو ابلنے دیں۔اس کے بعد چولہا بند کرکے پانی کو ٹھنڈا ہونے دیں۔اب اس میں چار سے پانچ قطرے خالص لیونڈر کا تیل شامل کریں۔ ٹھنڈا ہونے کے بعد اس مرکب کو ایسے ڈبے میں بند کردیں جہاں ہوا کا جانا ناممکن ہو۔
استعمال کرنے کا طریقہ: یہ مرکب اْس وقت سب سے زیادہ کارآمد ہوتا ہے جب صاف گیلے بالوں میں استعمال کیا جائے۔ یعنی نہانے کے بعد اس مرکب کو بالوں پر لگائیں، لیکن اس مرکب کو لگانے کے بعد بال نہ دھوئیں کہ یہ اْسی وقت کام کرتا ہے۔
ہفتے میں دو سے تین بار استعمال سے مثبت نتائج برآمد ہو جائیں گے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کیلئے ہیں، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی مشورہ کر لیں۔
لیونڈر سے متعلق اصلی اور خالص مصنوعات خریدنے کیلئے کلک کریں
Tags:
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.