کافور کے طبی فوائد
چہرے پر نکلنے والے دانوں کا بہترین علاج
۔
کافور طبی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔کافور ایک طویل قامت، خوبصورت اور سدا بہار درخت ہے جو 30میٹر تک بلند ہو جاتا ہے۔ یہ شیشم کے درخت کے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ بہت سایہ دار ہوتا ہے۔ کافور کے درخت کی عمر دو ہزار برس تک ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی شاخوں پر چھوٹے چھوٹے سفید پھول کھلتے ہیں جو بعد میں سرخ رنگ کے گودے دار پھل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک سفید شفاف مواد پیدا کرتا ہے جسے کافور کہا جاتا ہے۔ یعنی خام کافور لیکن یہ کافور وہی درخت پیدا کرتے ہیں جن کی عمر پچاس سال سے زائد ہو۔
۔
اس درخت کے بیجوں، جڑوں اور تنے کی لکڑی سے تیل نکال کر کافور تیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ مصنوعی کافور بھی بنایا جاتا ہے۔ جرمنی آج کل اس افراط سے مصنوعی کافور بنانے لگا ہے کہ اصلی کافور کا دستیاب ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ کافور قدرتی کافور سے بہت گھٹیا ہوتا ہے۔۔
کافور طبی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔کافور ایک طویل قامت، خوبصورت اور سدا بہار درخت ہے جو 30میٹر تک بلند ہو جاتا ہے۔ یہ شیشم کے درخت کے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ بہت سایہ دار ہوتا ہے۔ کافور کے درخت کی عمر دو ہزار برس تک ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی شاخوں پر چھوٹے چھوٹے سفید پھول کھلتے ہیں جو بعد میں سرخ رنگ کے گودے دار پھل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک سفید شفاف مواد پیدا کرتا ہے جسے کافور کہا جاتا ہے۔ یعنی خام کافور لیکن یہ کافور وہی درخت پیدا کرتے ہیں جن کی عمر پچاس سال سے زائد ہو۔
۔
اس درخت کے بیجوں، جڑوں اور تنے کی لکڑی سے تیل نکال کر کافور تیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ مصنوعی کافور بھی بنایا جاتا ہے۔ جرمنی آج کل اس افراط سے مصنوعی کافور بنانے لگا ہے کہ اصلی کافور کا دستیاب ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ کافور قدرتی کافور سے بہت گھٹیا ہوتا ہے۔۔
۔
کافور زیادہ تر چین میں پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے علاوہ جاپان، فارموسا اور بورنیو کے جزائر میں بھی اکثر کاشت کیا جاتا ہے۔ کافور کے درخت کو ہمارے ملک میں ککروندہ کہتے ہیں۔ گو اصلی ککروندہ
جس سے کافور نکلتا ہے برصغیر پاکستان و ہند میں پیدا نہیں ہوتا، لیکن اس کے بجائے ایسے پودے پیدا ہوتے ہیں جن سے خاصی مقدار میں کافور برآمد کیا جا سکتا ہے۔ برما میں ایک بوٹی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ برما نصف دنیا کی کافور کی مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔ پنجاب اور یوپی میں پیلے پھول والا ککروندہ عام ملتا ہے جس میں کافور جیسی بو ہوتی ہے۔ اس کو پنجابی میں ککڑ چھڈی کہتے ہیں جو بواسیر کے نسخوں میں استعمال ہوتا ہے۔
کافور زیادہ تر چین میں پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے علاوہ جاپان، فارموسا اور بورنیو کے جزائر میں بھی اکثر کاشت کیا جاتا ہے۔ کافور کے درخت کو ہمارے ملک میں ککروندہ کہتے ہیں۔ گو اصلی ککروندہ
جس سے کافور نکلتا ہے برصغیر پاکستان و ہند میں پیدا نہیں ہوتا، لیکن اس کے بجائے ایسے پودے پیدا ہوتے ہیں جن سے خاصی مقدار میں کافور برآمد کیا جا سکتا ہے۔ برما میں ایک بوٹی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ برما نصف دنیا کی کافور کی مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔ پنجاب اور یوپی میں پیلے پھول والا ککروندہ عام ملتا ہے جس میں کافور جیسی بو ہوتی ہے۔ اس کو پنجابی میں ککڑ چھڈی کہتے ہیں جو بواسیر کے نسخوں میں استعمال ہوتا ہے۔
۔
کافور ملے پانی سے میت کو غسل دینے کا شرعی حکم ہے۔ میت کے چہرے خصوصاً ماتھے اور جسم پر کافور کا پائوڈر بھی لگایاجاتا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ کافور کی وجہ سے میت جلدی خراب نہیں ہوتی، یہ دافع جراثیم، دافع بیکیٹریا اور دافع وائرس ہونے کی وجہ سے میت کو جلد خراب نہیں ہونے دیتا۔
لاہور کے لارنس گارڈن میں کافور کا ایک نہایت تناور درخت موجود ہے، اس سے چھوٹی عمر کے دو درخت اور بھی ہیں ۔
۔
کافور میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:
کافور کو مئوثر جراثیم کش داوئی کے طور پر جانا مانا جاتا ہے، اینٹی سیپٹک اور اینٹی فنگل خصوصیات کے باعث کافور جراثیم کش ہے۔ اس درخت میں سے ایک اور سیفرول نامی مرکب بھی نکلتا ہے، جو اپنے کولنگ افیکٹ کے باعث جلدی امراض کیلئے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ سیفرول کے علاوہ کافور میں سانیول، پائی نین، ٹرپینیول، میتھول، تھائی مول اور دیگر اجزا پائے جاتے ہیں۔
کافور کو آپ پانی میں حل کر کے یا پیسٹ کی صورت میں یا پھر اس کے تیل کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دوا ہے جسے جسم کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
۔
کافور کے حیران کن فوائد:
٭ کافور، ست اجوائن اورست پودینہ ہم وزن لے کر ان تینوں خشک ادویات کو اگر کسی خالی شیشی میں ڈال کررکھ دیں تو کچھ گھنٹوں بعد یہ تینوں اجزاء خود بخود تیل کی شکل اختیارکرلیں گے۔اس تیل کوکافی امراض میں استعمال کیاجاتا ہے اور مفید ثابت ہوتا ہے۔
٭ تلِ کا تیل نیم گرم کرکے اس میں چند قطرے روغن کافور شامل کر لیں تو موسم سرما میں ہونے والے سردرد میں لگانے سے درد دور ہو جاتا ہے۔ اس تیل کے سونگھنے سے نکسیر کا خون بند ہو جاتا ہے۔
٭ سرمہ، منجن، مرہم اوردیگر اشیاء میں کافورکا تیل استعمال کیاجاتا ہے۔
٭ تپ دق کے مرض میں مریض کے گلاس میں کافور کے تیل کے چند قطرے ڈال کر پانی پلایا جائے تو یہ پانی جسم میں داخل ہوکر تپ دق کے تمام جراثیم ہلاک کردے گا۔
٭ اس کا تیل زخموں کی صفائی کر کے انھیں جلد بھر دیتا ہے۔
٭ کلورل ہائیڈ ریٹ اورکافورکا تیل ایک ایک اونس ملا کر شیشی میں رکھ لیں۔ جہاں بچھو یا زہریلا کیڑا کاٹ لے وہاں اس دوا کے چار قطرے ڈال دیں آرام آجائے گا۔
٭ دانت کے درد کی دوا میں کافورشامل ہوتا ہے جس سے درد میں آرام آتا ہے، چنانچہ اس کا تیل متاثرہ جگہ پر لگانے سے فوراً آرام ملتا ہے۔
٭ اس کا تیل چہرے پر نکلنے والے دانوں کا بہترین علاج ہے۔ یہ جلد پر جلن نہیں کرتا۔
٭ کافور کا تیل جلد پر ہونے والی خارش اورجلن کو دورکرتا ہے۔
٭ کافور کا تیل لگانے سے ناخنوں کو فنگس سے بچایا جا سکتا ہے۔
٭ پانی میں کافورکا تیل شامل کرکے اگر آپ اس میں اپنے پاؤں بھگوکر دھو لیں تو ایڑیاں پھٹنے سے محفوظ رہتی ہیں۔
٭ کافورکا تیل اگر دوسرے تیل کے ساتھ ملاکر لگایا جائے تو یہ بالوں کو لمبا، گھنا، مضبوط اور جوؤں سے پاک رکھتا ہے۔
٭ یہ جسم کی سوجن اور درد دورکر کے بلڈ سرکولیشن کو بہتر بناتا ہے۔
٭ اگر نہانے کے پانی میں چند قطرے کافورکے تیل کے شامل کر لئے جائیں تو آپ پُرسکون محسوس کریں گے۔
۔
کافور کے دیگر استعمال:
سیلولائیڈ کی صنعت کو فروغ ملنے کی وجہ سے کافور کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔ دنیا میں جس قدر کافور پیدا ہوتا ہے اس کا ستر فیصد سلولائیڈ بنانے میں صرف ہوتا ہے۔ جبکہ پندرہ فیصد جراثیم کش ادویہ کی تیاری میں اور تیرہ فیصد دیگرادویہ کی تیاری ہیں جبکہ دو فیصد دوسرے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔
کافورکی لکڑی سے نہایت مضبوط صندوق تیارکئے جاتے ہیں۔ جن میں اگر اونی، ریشمی یا قیمتی کپڑے رکھے جائیں تو انمیں کیڑا نہیں لگتا بلکہ کپڑے خوشبودار ہو جاتے ہیں۔
کافور ملے پانی سے میت کو غسل دینے کا شرعی حکم ہے۔ میت کے چہرے خصوصاً ماتھے اور جسم پر کافور کا پائوڈر بھی لگایاجاتا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ کافور کی وجہ سے میت جلدی خراب نہیں ہوتی، یہ دافع جراثیم، دافع بیکیٹریا اور دافع وائرس ہونے کی وجہ سے میت کو جلد خراب نہیں ہونے دیتا۔
لاہور کے لارنس گارڈن میں کافور کا ایک نہایت تناور درخت موجود ہے، اس سے چھوٹی عمر کے دو درخت اور بھی ہیں ۔
۔
کافور میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:
کافور کو مئوثر جراثیم کش داوئی کے طور پر جانا مانا جاتا ہے، اینٹی سیپٹک اور اینٹی فنگل خصوصیات کے باعث کافور جراثیم کش ہے۔ اس درخت میں سے ایک اور سیفرول نامی مرکب بھی نکلتا ہے، جو اپنے کولنگ افیکٹ کے باعث جلدی امراض کیلئے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ سیفرول کے علاوہ کافور میں سانیول، پائی نین، ٹرپینیول، میتھول، تھائی مول اور دیگر اجزا پائے جاتے ہیں۔
کافور کو آپ پانی میں حل کر کے یا پیسٹ کی صورت میں یا پھر اس کے تیل کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دوا ہے جسے جسم کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
۔
کافور کے حیران کن فوائد:
٭ کافور، ست اجوائن اورست پودینہ ہم وزن لے کر ان تینوں خشک ادویات کو اگر کسی خالی شیشی میں ڈال کررکھ دیں تو کچھ گھنٹوں بعد یہ تینوں اجزاء خود بخود تیل کی شکل اختیارکرلیں گے۔اس تیل کوکافی امراض میں استعمال کیاجاتا ہے اور مفید ثابت ہوتا ہے۔
٭ تلِ کا تیل نیم گرم کرکے اس میں چند قطرے روغن کافور شامل کر لیں تو موسم سرما میں ہونے والے سردرد میں لگانے سے درد دور ہو جاتا ہے۔ اس تیل کے سونگھنے سے نکسیر کا خون بند ہو جاتا ہے۔
٭ سرمہ، منجن، مرہم اوردیگر اشیاء میں کافورکا تیل استعمال کیاجاتا ہے۔
٭ تپ دق کے مرض میں مریض کے گلاس میں کافور کے تیل کے چند قطرے ڈال کر پانی پلایا جائے تو یہ پانی جسم میں داخل ہوکر تپ دق کے تمام جراثیم ہلاک کردے گا۔
٭ اس کا تیل زخموں کی صفائی کر کے انھیں جلد بھر دیتا ہے۔
٭ کلورل ہائیڈ ریٹ اورکافورکا تیل ایک ایک اونس ملا کر شیشی میں رکھ لیں۔ جہاں بچھو یا زہریلا کیڑا کاٹ لے وہاں اس دوا کے چار قطرے ڈال دیں آرام آجائے گا۔
٭ دانت کے درد کی دوا میں کافورشامل ہوتا ہے جس سے درد میں آرام آتا ہے، چنانچہ اس کا تیل متاثرہ جگہ پر لگانے سے فوراً آرام ملتا ہے۔
٭ اس کا تیل چہرے پر نکلنے والے دانوں کا بہترین علاج ہے۔ یہ جلد پر جلن نہیں کرتا۔
٭ کافور کا تیل جلد پر ہونے والی خارش اورجلن کو دورکرتا ہے۔
٭ کافور کا تیل لگانے سے ناخنوں کو فنگس سے بچایا جا سکتا ہے۔
٭ پانی میں کافورکا تیل شامل کرکے اگر آپ اس میں اپنے پاؤں بھگوکر دھو لیں تو ایڑیاں پھٹنے سے محفوظ رہتی ہیں۔
٭ کافورکا تیل اگر دوسرے تیل کے ساتھ ملاکر لگایا جائے تو یہ بالوں کو لمبا، گھنا، مضبوط اور جوؤں سے پاک رکھتا ہے۔
٭ یہ جسم کی سوجن اور درد دورکر کے بلڈ سرکولیشن کو بہتر بناتا ہے۔
٭ اگر نہانے کے پانی میں چند قطرے کافورکے تیل کے شامل کر لئے جائیں تو آپ پُرسکون محسوس کریں گے۔
۔
کافور کے دیگر استعمال:
سیلولائیڈ کی صنعت کو فروغ ملنے کی وجہ سے کافور کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔ دنیا میں جس قدر کافور پیدا ہوتا ہے اس کا ستر فیصد سلولائیڈ بنانے میں صرف ہوتا ہے۔ جبکہ پندرہ فیصد جراثیم کش ادویہ کی تیاری میں اور تیرہ فیصد دیگرادویہ کی تیاری ہیں جبکہ دو فیصد دوسرے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔
کافورکی لکڑی سے نہایت مضبوط صندوق تیارکئے جاتے ہیں۔ جن میں اگر اونی، ریشمی یا قیمتی کپڑے رکھے جائیں تو انمیں کیڑا نہیں لگتا بلکہ کپڑے خوشبودار ہو جاتے ہیں۔
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.