انکول: جسکے طبی خواص عقل کو حیران کردیں
انکول (asian opium) کا نام کا درخت ہندوستان کی خاص پیداوار ہے۔ یہ پیپل کے درخت کی طرح ہوتا ہے۔یہ سوائے ہندوستان کے کسی اور ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ درخت بھارتیہ آیوروید شاستر کا ایک قیمتی اور بے نظیر سرمایہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیورید گرنتھوں میں اس کی بے حد تعریف کی گئی ہے۔ چونکہ یہ ہندوستان کے سوا کسی دیگر ملک میں پیدا نہیں ہوتا اس لئے اس کا ذکر یونانی طب میں بہت کم ملتا ہے اور اسی لئے یونانی اطباء اس بوٹی کے نام وخواص، تاثیر و استعمال سے کم آشنا ہیں۔
اس جنگل کی آغوش میں پرورش پانے والے درخت کے آیورویدک ناموں کے علاوہ ان سے ملتے جلتے نام دیگر زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔ یہ درخت اپنے انداز سے اپنے اندر ایسے عجیب و غریب طبی خواص اور قدرتی معجزات لئے ہوئے ہے کہ انسانی حلقہ میں اس کا کرشمہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایک ذرہ میں زندگی بخش قوت پنہاں ہے۔
لفظ”انکول“آنکلا سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں حیران کرنے والا۔ لہٰذا اس بوٹی(asian opium) کے طبی خواص انسانی عقل و دانش پر اپنے حیران کن تاثرات چھوڑ کر معجزہ قدرت دکھاتے ہیں۔
یہ عجیب وغریب ہندوستانی بوٹی (uses of opium) صرف ہندوستان کی پہاڑیوں میں پیدا ہوتی ہے لیکن خود رَو بوٹی ہے۔ اس کی پیدائش ہمیشہ پتھریلی ریتلی اور کنکریلی زمینوں میں ہوتی ہے۔ کوہ ہمالیہ کے دامن سے لے کر دریائے گنگا کے سبزہ زار کناروں پر اتر پردیش،اودھ، بہار میں اور ریتلے مقام راجستھان میں، بنگال اور پنجاب کے پہاڑی علاقوں میں ریتلے میدانوں میں یہ بوٹی عام ملتی ہے۔ گجرات کاٹھیاواڑ اور ہندوستان کے مشرقی و مغربی ساحلوں پر یہ بوٹی عام دیکھی جاتی ہے۔یہ کشمیر کے سبزہ زاروں، جھیلوں، اور چشموں کے کناروں پر درخت اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔
اس بوٹی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم سیاہ انکول(asian opium) ہے دوسری سفید۔ لیکن بعض کتابوں میں سرخ اور زرد قسم کی انکول کا بھی ذکرملتا ہے۔ جس انکول کے درخت کے پھول بینگنی رنگت لئے ہوئے ہوں اور درخت کی چھال سخت اور مٹیالے رنگ کی ہو۔ا سے سیاہ انکول کہتے ہیں۔ اس کے برعکس سفید پھول والی سفیدانکول کہلاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ سیاہ قسم کی انکول نایاب تو نہیں البتہ کمیاب ضرور ہے۔ سفید انکو ل با فراط پیدا ہوتی ہے اور عموما ًاسے بہتات سے استعمال (uses of opium) کیا جاتا ہے۔
اس کی جڑ کو اگر چوڑائی کے رخ کاٹا جائے تو اندر سے اس کا درمیانی حصہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور یہ اندر سے سوراخ دار ہوتا ہے۔ ان سراخوں کے اردگرد گول حلقے سے معلوم ہوتے ہیں۔ جڑ کا اوپر کا چھلکا دارچینی کی طرح گہرے خاکی رنگ کا کھردرا ہوتا ہے اور اس پر عمودی سرخ دھاریاں ہوتی ہیں۔ اندر کی چھال کا رنگ سفید اور ملائم ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی خوشبو سی محسوس ہوتی ہے۔ اور چھال کا ذائقہ نیم کی طرح کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔ یہ چھال ڈیڑھ انچ تک موٹی ہوتی ہے۔درخت کے تنے کی چھال اور ٹہنیوں کی چھال پر جہاں پتے نمودار ہوتے ہیں وہاں چھوٹے چھوٹے کاٹنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس درخت کے پھولوں کی خوشبو نہایت دلکش اور بھینی بھینی ہوتی ہے۔
انکول (asian opium) لکڑی نہایت مضبوط زردی مائل رنگت لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس کا درمیانی حصہ ہلکے بادامی رنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں سے نہایت خوشبودار مہک سی آتی ہے۔ اس کے پتے لمبے چوڑے ہوتے ہیں۔ پتوں کی وضع قطع اور شکل وشباہت کنیر کے پتوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ پتے برچھی نما ہوتے ہیں اور ان کی لمبائی تقریبا چھ انچ تک ہوتی ہے۔
لیکن اس کا چھوٹے سے چھوٹا پتہ بھی تین انچ سے کم نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ پتے تین انچ سے لے کر چھ انچ تک ہو سکتے ہیں۔ اس درخت کے پتوں میں ایک خصوصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ بیل گری کے پتوں کی طرح ایک گانٹھ میں تین پتے ہوتے ہیں۔ پتے کے اوپر کا حصہ ہلکے سبز رنگ کا اور دوسری طرف کا حصہ زرد رنگ کا ہوتا ہے جس میں پتوں کے رگ اورریشے ٹیڑھے سیدھے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ریشے اکثر سفید ہوتے ہیں۔
جب درخت پر نئے پتے اگتے ہیں تو وہ نہایت ملائم اور اُن پر روئیں ہوتے ہیں۔ یہ روئیں نہایت نرم و نازک ہوتے ہیں۔
موسم سرما کے اختتام پر نئے پھول آنے پر اس درخت(asian opium) کے پتے ٹہنیوں پر سو کھ کر گر پڑتے ہیں۔ اس وقت یہ درخت بغیر پتوں کے پھولوں سے لدا اپنی دلکش بہار دکھاتا ہے اور اپنی لا مثال خوبصورتی کے لحاظ سے نہایت پسندیدہ اور جاذب نظر معلوم دیتا ہے۔چیت بیساکھ کے مہینے میں اس کے پھول جھڑ جاتے ہیں اور پھر نئے پتے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پتوں کا ذائقہ اور ان کی خوشبو میں کچھ ترشی پائی جاتی ہے۔ اس کے پتے کے ڈنٹھل چکنے چھوٹے اور ٹیڑے سے ہوتے ہیں۔ان پر بھی ملائم روئیں پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے کانٹے لمبائی میں 1/4انچ یا اس سے کچھ کم ہوتے ہیں۔ اس کے پھول چھوٹے اور زدرنگ کے گچھے دار ہوتے ہیں۔ درخت کی ملائم شاخوں پر جہاں جہاں پتے جھڑ جاتے ہیں وہاں دو دو پھل ایک ساتھ لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے پھولوں کے گچھوں کا گھیرا ساڑھے چھ انچ تک ہوتا ہے۔ ان میں چنبیلی کے پھولوں کی مانند خوشبو ہوتی ہے۔ ہر پھول بیضوی شکل میں چھ سے دس پنکھڑیاں لئے ہوتا ہے۔ بیضوی شکل میں موسم سرما کے اختتام پر اکثر ماگھ سے چیت کے مہینے تک اس میں پھول نکلتے رہتے ہیں۔ پھولوں کی پنکھڑیاں نیچے کی جانب سے ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔ پنکھڑیوں کا گچھا باہر کی جانب سے کچھ زرد سا معلوم ہوتا ہے اور اندر کی طرف سے سفید ی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس پر بھی روئیں ہوتے ہیں۔ ان کا گھیرا چار انچ یا کچھ کم ہوتا ہے۔
اس کے پھولوں (asian opium) کا زیرہ بھی کچھ عجیب سا ہوتا ہے۔ زیرہ کی دو قسمیں ہیں، ایک نر زیرہ اور دوسرا مادہ ذیرہ ہے۔ مادہ زیرہ صرف ایک ہی ہوتا ہے مگر نر زیرے بے شمار ہوتے ہیں۔ مادہ زیرا سفید رنگ کا اورنر زیرہ کی رنگت مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے۔ان زیروں پر اگ بھری ہوتی ہے۔ دونوں قسم کے زیرے اکٹھے ہوتے ہیں۔
انکول (asian opium)ریٹھے یا جنگلی بیر کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے پھل کی گولائی ڈیڑھ انچ سے کم ہوتی ہے۔ پھل چکنااور گول ہوتا ہے۔ یہ پھل بیساکھ سے لے کر ساون تک لگتے اور پکتے ہیں۔ یہ پھل پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ جب پھل پکتے ہیں تو ان کی رنگت سبز ہوتی ہے اور پھل کے اوپر کی چھال پر عموماً دھاریاں ہوتی ہیں۔ پھل کا ذائقہ کسیلا اور چریرا سا ہوتا ہے۔ پھل کی کھال چمکدار ہوتی ہے اور اس پر لیس دار رطوبت پائی جاتی ہے۔ پھل کی پیشانی پر ناریل کی طرح سوراخ ہوتا ہے۔
کچے پھل کی رنگت جامنی رنگ کی ہوتی ہے اور اس کی پیشانی سخت اور خشک ہوتی ہے۔ مغز کی چھال نہایت ملائم ہوتی ہے۔ اگر مغز کو ذرا سا دبا دیا جائے تو اس میں سے کانجی کی مانند لعاب سا نکلتا ہے۔اس لعاب کی خوشبومن وعن مچھلی کی سی ہوتی ہے۔ ذائقہ میں لذیذ اور شیریں ہوتا ہے اور اگر یہ پھل نیم پکا کر کھایا جائے تو اس میں ترشی اور کسیلا پن ہوتا ہے۔
اس میں سخت گٹھلی دو جانب سے چپٹی سی نکلتی ہے۔ گٹھلی کے اندر بیچ کا مغز ہوتا ہے۔ بیج گول مگر اوپر نیچے سے چپٹا ہوتا ہے۔ بیج کی چھال پتلی اور بادامی رنگ کی ہوتی ہے۔ اگر بیج کو ناخن سے چھیلا جائے تو اس سے تیل نکلتا ہے۔ اس تیل میں بے شمار طبی خواص پنہا ں ہیں اور کرشمہ قدرت ہے۔ اس تیل کی طبی خصوصیات لکھنے کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے اس کی بہت تعریف کی ہے اور اس تیل کے متعلق کہا ہے کہ یہ جلودھر، زہریلے امراض، ہر قسم کے بخار، جلن، نزلہ، زکام،اتی سار(دست)، سنگرہنی، زہروں کے خوفناک تاثرات، سفید داغ،جذام(کوڑھ)، عام جسمانی کمزوری، جریان اور بواسیر وغیرہ اور مہلک و خوفناک امراض کے لئے تیز بہدف ثابت ہوتا ہے۔ جلدی امراض (چمبل،سورائسسیس وغیرہ)کے دافع کے لئے انکول کا تیل بہترین معالج اور ہمدرد دوست سے کسی قدر کم نہیں۔
طبی نقطہ نگاہ سے اس کے تیل کا مزاج دوسرے درجہ میں گرم ہے۔ جگر کو طاقت دیتا ہے اور کرم کش ہے۔ اگر حد اعتدال سے اس کا زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے۔ زیادہ مقدار میں اس تیل کا استعمال دماغی نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے اور مریض اپنی طبیعت میں ایک ناگہانی پریشانی محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات مریض کی زندگی کو ایک خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ گویا تمام جسم میں ایک پریشان کن ہلچل مچ جاتی ہے۔ اس لئے اس کا استعمال بڑی احتیاط سے کیا جانا لازمی اور ضروری ہے۔
جڑ کی چھال کا سفوف پتوں کا سفوف باہم ملا کر دینے سے دِق کا عارضہ رفع ہوتا ہے۔
دردوں کی حالت میں اس کی جڑ کو پانی میں گھس کر لیپ کرنے سے آرام ملتا ہے۔
اس کی لکڑی یا پتوں کو فرش پر بچھاکر سونے سے سانپ، بچھو زہریلے جانور اور کیڑے مکوڑے نزدیک تک نہیں آتے۔ اسی طرح ڈنک مارنے والے بھڑ، مچھر وغیرہ تک بھی نہیں آتے۔ یہ ان کے لئے زہر قاتل ہے۔
انکول کی جڑ کا سفوف ایک سے دو گرام تک مریض کو دینے سے پتلے دست آکر جگر کی خرابی دور ہوجاتی ہے اور پیشاب کے امراض دور ہوتے ہیں۔
اس جڑ کو پانی میں گھس کر گرم پانی میں پلیگ کی گلٹی پر تین چار بار لیپ کرنے سے پلیگ کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جسم میں کسقسم کی گانٹھ یا رسولی پیدا ہو جائے تو اس کی جڑ کا بطریق مذکور گرم گرم لیپ کرنے سے فورا ًآرم ملتا ہے۔
اس کی جڑ کو لیموں کے رس میں گھوٹ کر گاڑھا لعاب بنا لیں اور آدھا چمچہ کھانا کھانے سے نصف گھنٹہ پیشتر صبح و شام پلاتے رہنے سے دمہ کا عارضہ کافور ہوجاتا ہے۔
انکولکی چھال، رائی، لہسن ہر ایک چھ چھ گرام، خوب باریک پیس کر باہم ملا لیں۔ اس مرکب میں تین سالہ پرانا گڑ مرکب کے وزن کے برابر ملا کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بقدر دال ماش بنالیں۔ مریض دمہ کو پہلے دودھ پلاکر یہ گولی نگلوا دیں،یا دودھ کے ہمراہ ہی مریض گولی نگل جائے۔ چند گولیاں نگلنے سے برسوں کا پرانا دمہ دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ بعض حالتوں میں بڑی گولیاں دو یا تین عدد دینے سے مریض کو قے آکر تمام بلغم خارج ہو جاتا ہے اور مریض کو ہمیشہ کے لئے مرض سے نجات مل جاتی ہے۔ مریض کو استعمال کے دوران میں گھی اور چاول بطور غذا خوب دینی چاہیے لیکن اس علاج میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
انکول کی جڑ کا سفوف 5 گرین سے8 گرین تک پانی میں خوب حل کر کے پلانے سے پسینہ آ کر بخار اتر جاتا ہے۔ یہ سفوف کپڑبیز ہونا چاہئے۔ موسمی بخاروں کے لئے ازحد مفید ہے۔
اگر کسی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہو توانکول کی جڑ 25 گرام کو باریک پیس کر دو کلو پانی میں ابالیں۔ 125 گرام پانی باقی رہ جانے پر ہرپندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد 25 سے 50 گرام کی مقدار میں یہ جوشاندہ گرم کئے ہوئے گائے کے گھی میں ملا کر پلانے سے قے یا دست جاری ہو کر مارگزیدہ کا زہر جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔
زہر خارج ہوجانے پر متواتر ایک ہفتہ نیم کی چھال کا اندرونی چھلکا اور انکو ل کی جڑ کا چورن ڈیڑھ گرام ابال کر روزانہ صبح وشام پلاتے رہنے سے سانپ کا زہر قطعی طور پر خارج ہوجاتا ہے اور مریض کی زندگی بچ جاتی ہے
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
خالص اور معیاری اشیاء خریدنے کیلئے کلک کریں:
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.