روزہ رکھ کر ورزش نہ کرنا رمضان ضائع کرنے کے مترادف
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے حال ہی میں ٹیلی فون کے ذریعے عوام سے بات چیت کے سیشن دوران ایک شہری نے سوال کیا تھا کہ وہ رمضان میں کس وقت ورزش کرتے ہیں۔شہری کے سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ رمضان میں ہمیشہ روزہ کھولنے سے پہلے ورزش کرتے ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اگر آپ روزہ رکھ کر ورزش نہیں کر رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ رمضان کو ضائع کر رہے ہیں۔
رمضان میں ورزش کے حوالے سے متعدد افراد کے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں کہ آیا روزہ رکھ کر ورزش کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اور رمضان میں ورزش کرنے کا بہترین وقت کون ساہو سکتا ہے۔
ان سوالات کے حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کہ رمضان میں ورزش کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ آپ بہت سست روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رمضان میں ورزش کرنا مکمل طور پر محفوظ ہے۔ لوگوں کو رمضان میں بھی ورزش کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ جسم کو پُھرتیلا اور توانا رکھتی ہے۔
ویسے بھی ورزش کے رجحان کو پروان چڑھا کر ہم بغیر ادویہ کے صحت کو بحال، اور ایسے امراض کا… جو آج سوہانِ روح ہیں مثلاً موٹاپا، بلڈپریشر، شوگر، ذہنی تناؤ… بغیر کسی خرچ کے علاج کرسکتے ہیں۔ ورزش کرنے والے افراد کے خون کی گردش متوازن رہتی ہے، تازہ آکسیجن سے پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں، دائمی نزلہ زکام، سر درد اور قبض سے نجات ملتی ہے۔
ورزش کیوں ضروری ہوتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ تقریبا 8 گھنٹے یا اس سے ذیادہ ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنا ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آجکل کی مصروف زندگی میں لوگوں کی کثیر تعداد اپنا ذیادہ وقت پہلے دفتر میں اپنی میز پر اور پھر گھر میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے گزارتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ہی جگہ پر ذیادہ دیر بیٹھے رہنے سے ہمارے پٹھے جسم میں موجود چربی کو کم تعداد میں برن کرتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود خون ست رفتارسے بہتا ہے۔ یہ عمل ہمارے جسم میں موجود چربی کو دل کی رفتار کم کرنے یا روکنے میں معاونت دے سکتا ہے جو ہماری صحت کے لیے خطرناک ہے۔ محققین ہائی بلڈ پریشر اور ہائی کولیسٹرول کو ذیادہ دیر بیٹھے رہنے سے بھی منسلک کرتے ہیں۔ جسم میں خون کی سست رفتار ٹخنون میں سوجن اور پھولی ہوئی رگوں کا باعث بھی بنتی ہے۔
جب ہم کھڑے ہوتے ہیں، چلتے ہیں یا سیدھا بیٹھتے ہیں تو ہمارے پیٹ کے پٹھے ہمیں سیدھا رہنے کے لیے مدد دیتے ہیں۔ لیکن جب ہم کرسی پربیٹھے رہتے ہیں تو ہمارے پٹھے حرکت میں نہیں رہتے اور یہ اکٹرے ہوئے پٹھے اکثر ریڑھ کی ہڈی کی قدرتی شکل کو خراب کرنے کاسبب بن سکتے ہیں۔پٹھوں کے حرکت میں رہنے سے دماغ کے ذریعے ہمیں تازہ خون اور آکسیجن کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ لیکن جب ہم ذیادہ دیر تک ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں تو ہمارے جسم میں موجود ہر حصہ ہمارے دماغ سمیت غیر فعال ہو جاتا ہے۔
جسمانی طور پر فعال رہنا دل کی بیماریوں اور اسٹروک کو روکنے کے لیے بہت اہم ہے۔ امریکن ہارٹ ایسویشن کے مطابق مجموعی طور پر دل کی صحت کے لیے ہفتہ میں 5 دن 30 منٹ کی ورزش، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کم کرنے کے لیے ہفتہ میں تقریبا 4 دن 40 منٹ کی ورزش بہت ضرروی ہے۔
رمضان میں ورزش کا بہترین وقت؟ بہت سے افراد رمضان میں ورزش کرنے کے اوقات کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ انہیں روزہ رکھ کر ورزش کرنی چاہیے یا روزہ کھولنے کے بعد۔ اس ضمن میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ رمضان میں ورزش کرنے کے اوقات بہت زیادہ معنی رکھتے ہیں کہ آپ کس وقت ورزش کر رہے ہیں۔
ماہرین کے بقول اگر آپ روزے کے حالت میں صبح ہی ورزش کر لیتے ہیں تو یہ آپ کی صحت کے لیے ایک اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہو گا۔ کیوں کہ صبح ورزش کرنے کے بعد آپ کے جسم میں پورا دن گزارنے کے لیے توانائی باقی نہیں رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ رمضان میں ورزش کا بہترین وقت افطار سے 20 سے 30 منٹ پہلے ورزش کرنا معاون ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب آپ ورزش کر کے فارغ ہوں گے تو اس کے تھوڑی ہی دیر بعد روزہ کھولنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ان کے مطابق اگر کوئی روزے کی حالت میں ورزش نہیں کرنا چاہتا تو انہیں چاہیے کہ وہ افطار میں بہت ہلکی غذا لیں اور افطار کے کچھ دیر بعد ورزش کی جا سکتی ہے۔
روزے کی حالت میں کس قسم کی ورزش ہو؟ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ہمیں ہائی انٹینسیٹی انٹرول ٹریننگ یا ورک آؤٹ کرنے چاہیئں۔ ہائی انٹینسیٹی انٹرول ٹریننگ میں لنجز، اسکواٹس، رننگ، کرنچز اور اس طرح دیگر ایکسر سائز شامل ہوتی ہیں جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور یہ ورزش جسم کی چربی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تاہم کوشش کرنی چاہیے کہ کم از کم 20 منٹ ورزش لازمی کی جائے اور ہر دو سے تین دن بعد اپنی ورزش کا دورانیہ بڑھانا چاہیے۔مزید کہ اگر روزانہ ایک ہی طرح کی ورزش کی جائے تو اس سے جسم پر اثرات کم ہوں گے۔ چنانچہ اگر روزانہ ٹریڈ مِل (ورزش کی مشین) کے ذریعے بھی ورزش کی جائے تو دو سے تین دن بعد ٹریڈ مِل کی رفتار اور دورانیے کو بڑھاتے رہنا چاہیے۔
رمضان میں روزہ رکھنے اور ورزش کرنے سے بہت توانائی خرچ ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی غذا کا استعمال کیا جائے جو غذائیت سے بھر پور ہو۔ پھل اور سبزیاں توانائی بخش ہوتی ہیں اور ساتھ ہی پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔
رمضان میں وزن کم اور معتدل رکھنے کا طریقہ: ماہرین صحت کے مطابق رمضان میں فٹ رہنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے وزن، قد اور عمر کے حساب سے مینٹیننس کیلوریز نکالیں۔ مینٹیننس کیلوریز وہ ہوتی ہیں جس سے وزن معتدل رہتا ہے۔ اگر مینٹیننس کیلوریز سے زیادہ کیلوریز لی جائیں تو اس سے وزن بڑھے گا اور اگر اس سے کم کیلوریز لی جائیں تو وزن کم ہونا شروع ہو جائے گا۔
کیلوریز کیا ہوتی ہیں؟ لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیلوریز ہوتی کیا ہیں؟ کیلوری یا حرارہ بنیادی طور پر توانائی ناپنے کا یونٹ ہے جس کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک گرام پانی کا درجہ حرارت ایک سینٹی گریڈ بڑھانے کے لیے درکار توانائی یا حرارت کو ایک کیلوری کہا جاتا ہے۔ 1948 سے کیلوری کو توانائی کی ایک اور اکائی 'جول' کے تناسب سے بیان کیا جاتا ہے جس کے مطابق ایک کیلوری چار اعشاریہ دو جول کے مساوی ہوتی ہے۔
خوراک میں شامل کیلوریز سے مراد اس سے حاصل ہونے والی توانائی ہے جس کا تعین کیلوریز کی مقدار سے کیا جاتا ہے۔ہم روز مرہ جو بھی غذا کھاتے ہیں اس میں کیلوریز کی الگ الگ مقدار ہوتی ہے۔ یہی کیلوریز انسانی جسم کو توانائی فراہم کرتی ہیں اور کام کاج کے قابل بناتی ہیں۔
غذا کے ذریعے جسم کو ملنے والی کیلوریز کی غیر استعمال شدہ مقدار وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے وزن کم کرنے یا معتدل رکھنے کے لیے اپنی روزمرہ کیلوریز کی ضرورت اور کھانے پینے کی اشیا میں کیلوریز کی مقدار کو دیکھتے ہوئے غذائی معمول ترتیب دینا چاہیے۔
اگر رمضان میں اپنا وزن کم کرنا ہے تو مثال کے طور پر آپ کی مینٹیننس کیلوریز 1800 ہیں تو وزن کم کرنے کے لیے 1400 یا 1500 کے قریب کیلوریز لینی ہوں گی۔ اسی طرح کی غذا لینے سے آپ کا وزن کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ایسے لوگ جو رمضان میں اپنا وزن معتدل رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اپنی مینٹیننس کیلوریز کو مدِ نظر رکھ کر ہی غذا کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق، صحتمند رہنے کے لیے مردوں کو اوسطً 2500 کیلوریز روزانہ، جبکہ خواتین کو 2000 کیلوریز روزانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
معیاری اور خالص مصنوعات خریدنے کیلئے کلک کریں:
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.