پیٹ کی چربی کم کرنے کا آسان طریقہ
پیٹ کی چربی کی وجہ سے اکثر لوگ پریشان ہوتے ہیں اور مختلف ادویات کے استعمال سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اب ماہرین نے گری دار میوں کے بارے میں بتایا ہے جو آپ کو وزن کم کرنے میں مدد دیں گے۔
کاجو مشرقی برازیل سے تعلق رکھنے والا اور آم اور پستے کے خاندان ’ایناکارڈی سیسی‘ کا یہ درخت اب برازیل کے علاوہ نائیجیریا، تنزانیہ، موزمبیق اور کینیا میں وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اب یہ ہندوستان، سری لنکا اور دیگر ممالک میں بھی کاشت کیا جاتا ہے۔
اس کے درخت 30سے 40فٹ کے لگ بھگ اونچے ہوتے ہیں۔ کا جو کے پھل چھوٹے چھوٹے گولائی میں ہوتے ہیں۔ کاجو کا چھلکا نہایت نازک ہوتا ہے۔ سوکھنے پر پھل خود بخود علیحدہ ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر سے دو بیجوں کی صورت میں کا جو نکلتا ہے۔
یہ بادام سے بھی زیادہ لذید ہوتا ہے۔ کاجوکے درخت میں نومبر سے فروری تک پھول لگتے ہیں اور پھل مارچ سے مئی تک پکتا ہے۔ درخت سے کاجو جو گر جا تے ہیں انہیں چن لیا جاتا ہے۔
ایک درخت سے 20 پونڈ سے 30 پونڈپختہ ہو کر کاجو گرتے ہیں۔ مگر کئی درخت ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے پچاس پچاس پونڈ تک کاجو حاصل ہوتے ہیں۔ کھانے کے لائق بنانے کے لئے کاجو کو گرم ریت یا لوہے کی کھلی کڑاہیوں میں یامٹی کے برتنوں میں بھونا جا تا ہے۔ اس کا چھلکا اتار دیا جاتا ہے اور مغز کے اوپر کی بھورے رنگ کی تہہ بھی اتار دی جاتی ہے۔
کاجو کی برفی بنائی جاتی ہے جو برصغیر کی ایک پسندیدہ مٹھائی ہے جو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ کاجو چاہے نمک کے پانی میں بھونے ہوئے ہوں یا نمک مرچ کے ساتھ تلے ہوئے بہت مزیدار ہوتے ہیں۔کاجو کو ہر سالن میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور چھوٹے چھوٹے ٹکرے کرکے سلاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔گاجر اور ادرک کے شوربے کو کاجو ڈال کر گاڑھا کیا جاسکتا ہے۔انہیں تر کاری اوربریانی میں بھی ڈالا جاتا ہے۔اسے اعتدال کے ساتھ یعنی5 کاجو روزآنہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کاجو میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: ایک کلو مغز کاجو میں ایک ہزار یونٹ وٹامن اے،ایک ہزار 9 سو یونٹ وٹامن بی 2،اچھی مقدار میں نکو ٹینک ایسڈ اور پانچ ہزار نو سو ساٹھ یونٹ کلو ریز ہوتے ہیں علاوہ ازیں روغنی مادہ، معدنیا ت، کاربوہائیڈ ریٹ، کیلشیم، فاسفورس اور فولاد جیسے قیمتی اجزائبھی پائے جاتے ہیں۔
کاجو کے طبی فوائد کاجو ایک ایسا خشک میوہ ہے جس میں صحت سے متعلق بے شمار فوائد موجود ہیں، اس میں قُدرتی طور پر معدنیات، وٹامنز، غذائی اجزاء اور اینٹی آکسیڈینٹس پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے بہت مفید ہیں خاص طور پر وزن میں کمی اور دِل کی اچھی صحت کے لیے کاجو بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
کاجو سے وزن کم کرنا بہت ہی آسان ہے اِس کے لیے بس ضروری یہ ہے کہ روزانہ اپنی غذا میں کاجو کو شامل کرلیا جائے اور پھر آہستہ آہستہ آپ کو اپنے وزن میں کمی محسوس ہونا شروع ہوجائے گی۔
بادام
معالجن کہتے ہیں کہ سردی کا موسم جسم میں تازہ خون بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور سردیوں میں کھائے جانے والے خشک میوے اپنے اندر وہ تمام ضروری غذائیت رکھتے ہیں جو جسم میں توانائی اور تازہ خون بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔یہ میوے معدنیات اور حیاتین سے بھرپور ہوتے ہیں اور اسی غذائی اہمیت کے پیشِ نظر معالجین انہیں ”قدرتی کیپسول“ بھی کہتے ہیں۔ انہی میوہ جات میں سے ایک بادام بہت مشہور میوہ ہے اور سب لوگ اسے شوق سے کھاتے ہیں۔ بادام کو مغزیات کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔
زمانہ قدیم سے اس کی کاشت کی جا رہی ہے۔ بادام کی دو عمومی قسمیں ہیں۔ ایک کڑوا اور دوسرا میٹھا۔ کڑوا بادام کھانا نہیں چاہیے۔ یہ زہریلا ہوتا ہے۔ بادام کے تیل کو روغنِ بادام کہتے ہیں۔اس کا درخت عام طور پر 20 سے 25 فٹ تک اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ پتے اوپر سے چوڑے اور پیندے سے تنگ اور گنجان دانے دار ہوتے ہیں۔ پھل جب کچا ہوتا ہے تو سبز رنگ کا مخملی روئیں والا ہوتا ہے۔ اندر کی گری مزے میں کسیلی اور معمولی سی کھٹاس لیے ہوتی ہے۔ جب پھل پک جاتا ہے تو اوپر کا چھلکا پھٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے اور گٹھلی آسانی سے نکل جاتی ہے۔
بادام قدرت کی جانب سے بنی نوع انسان کیلئے ایک انمول تحفہ ہے، جو خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار طبی فوائد کا حامل بھی ہے۔ یہ مختلف بیماریوں کے خلاف مضبوط ڈھال کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بادام جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور موسم سرما کے مضر اثرات سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال انسانی جسم کو مضبوط اور توانا بناتا ہے۔
بادام میں پائے جانے والی کیمیائی اجزا طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بادام میں وٹامن ای، کیلشیم، فاسفورس، فولاد اور میگنیشیم شامل ہوتا ہے، جبکہ اس میں زنک، کیلشیم، تانبا بھی مناسب مقدار میں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا بادام کا استعمال بہت سی بیماریوں میں شفا بخش بھی ہوتا ہے۔
غذائی لحاظ سے بادام کے 100 گرام میں 579 کیلوریز پائی جاتی ہیں، 21.15 گرام پروٹین، 49.93 گرام فیٹ، 21.55 گرام کاربوہائیڈریٹس، 12.50 گرام فائبر، 4.35 گرام شوگر پائی جاتی ہے۔وٹامنز اور منرلز کے اعتبار سے بادام بھر پور میوہ ہے جس میں 269 ملی گرام کیلشیم، 3.17 ملی گرام آئرن، 270 ملی گرام میگنیشیم، 481 ملی گرام فورسفورس، 733 ملی گرام پوٹاشیم اور 25.63 ملی گرام وٹامن ای پایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بادام ایک مکمل غذائیت والا میوہ ہے جس کے استعمال سے مجموعی صحت اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے، خوبصورتی میں اضافے کے لیے بادام کا استعمال کیسے کیا جائے؟بادام کے تیل میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پائے جانے کے سبب یہ ایک بہترین قدرتی موسچرائزر ہے جس کا استعمال بالوں اور چہرے کے لیے نہایت مفید ہے،
بادام کو پروٹین، اینٹی آکسیڈنٹس اور دل کے لیے صحت مند چکنائی کے طور پر سُپر فوڈز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ بادام میں پائی جانے والی مونو غیر سیر شدہ چکنائی زیادہ کھانے سے روکتی ہے، درحقیقت یہ نامی امینو ایسڈ کا ایک اچھا ذریعہ ہیں جو آپ کے جسم کی زائد چربی کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
روزانہ 3 سے 5 بادام کھانے سے وزن کم ہوسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ ان گری دار میوے میں موجود فائبر اور پروٹین آپ کو زیادہ دیر تک بھرا ہوا رکھتے ہیں اور آپ کے ہاضمے کی صحت کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔
اخروٹ
اخروٹ موسم سرما میں استعمال ہونے والے خشک میوہ جات میں اپنی غذائی افادیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔سرد برفانی علاقوں کے لوگ موسم کی شدتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کا بکثرت استعمال کرتے ہیں اور میدانی علاقوں کے لوگوں میں بھی یہ رغبت سے استعمال ہوتا ہے۔اپنے غذائی حراروں کے سبب موسم سرما میں جسم میں طاقت اور حرارت کا احساس دلاتا ہے یہی وجہ ہے کہ غذا اور دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اخروٹ انسانی دل، دماغ، ہڈیوں، چہرے کی رنگت، بالوں کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے ساتھ سرطان جیسے جان لیوا مرض سے بچاؤ میں بھی معاونت کرتا ہے۔
پاکستان میں اخروٹ کے درخت بلوچستان،سوات،مری،آزاد کشمیر کے علاقوں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔جبکہ ایران اور افغانستان میں اخروٹ کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بحیرہ روم کے اطراف کے ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک میں اخروٹ کی کاشت بھی بہت زیادہ ہے۔
اخروٹ کے درخت کی لمبائی عموماً ایک سو سے ایک سوبیس فٹ تک ہوتی ہے اور گولائی بارہ سے تیس فٹ تک ہوتی ہے۔تیس سال کے بعد اس درخت میں پھل آنے لگتا ہے اور بعض اوقات چالیس سال سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔
جب اس کا پھل اکٹھا کیا جاتا ہے تو اسے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس وقت ان میں دودھ جیسی رطوبت نکلتی ہے۔تین ماہ کے بعد یہ دودھ جیسی رطوبت جم کر مغز بن جاتی ہے جسے مغزاخروٹ کا نام دیا جاتا ہے اور پھر اسے موسم سرما میں خشک میوہ کے طور پر غذائیت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اخروٹ میں پائے جانے والی کیمیائی اجزا ایک تحقیق کے مطابق مغزیات میں 13 تا 20 فیصد لحمیات، 50 تا 60 فیصد روغنیات، 9 تا 12 فیصدنشاستہ، 3 تا 5 فیصد کیلوریز اور کئی دوسری معدنیات کی مقدار ایک فیصد ہوتی ہیں۔جبکہ ایک سوگرام مغزیات میں چھ سوغذائی حرارے(کیلوریز) پیدا ہوتے ہیں۔
اخروٹ میں پائے جانے والے غذائی اجزاء کا جو کیمیائی تجزیہ کیا گیا ہے اس کے مطابق ایک ہزار گرام اخروٹ میں حسب ذیل اجزاء پائے جاتے ہیں۔
پانی 3.1 گرام،لحمیات 20.5 گرام روغنیات 59.3 گرام،چکنائی 14.8 گرام،ریشہ 1.7 گرام، راکھ2.3 گرام، کیلشیم 0.15 گرام، فاسفورس 5.70 گرام، فولاد 6.0 گرام سوڈیم 3.0 گرام، پوٹاشیم 5.60 گرام، حیاتین بی ون 0.22،وٹامن ای، بی ون، بی ٹو، حیاتین بی ٹو0.11اور بی تھری، کاپر، اومیگا -3 فیٹی ایسڈ، کیلوریز628 گرام اور بہت سے اہم اجزا پائے جاتے ہیں۔
روزانہ مٹھی بھر اخروٹ چکنائی کو کم کرنے اور صحت مند جسمانی وزن کو فروغ دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔
اخروٹ اپنی حیرت انگیز بھوک پر قابو پانے کی طاقت کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اخروٹ میں موجود اومیگا 3 فیٹی ایسڈز، پلانٹ سٹیرولز اور وٹامنز کی موجودگی کی بدولت بھوک کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
پستہ
مختلف اقسام کے کھانے کھانا اور اس کے ساتھ باقاعدہ جسمانی سرگرمی کو جاری رکھنا ایک صحت مند طرزِ زندگی کے لیے ضروری ہے۔اس بات کا بہت کم افراد کو علم ہے کہ مٹھی بھر پستے کھالینا بہتر صحت اور خوبصورتی کا انوکھا راز ہے۔
7 ہزار قبل مسیح سے استعمال ہونے والے پستہ کا آبائی علاقہ ایران کو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیاء کے دیگر علاقوں شام، ہندوستان اور ترکی کو بھی اس کا آبائی وطن مانا جاتا ہے۔ ایران اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پستہ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور شام تیسرے نمبر پر ہے۔ ترکی، چین، یونان، افغانستان، اٹلی، ازبکستان اور پاکستان میں پستہ کاشت کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں پستہ کی جنگلی قسم Pistachio kinjakپہاڑی علاقوں میں اب بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت کوئٹہ، مستونگ، قلات، پشین اور دیگر علاقوں میں پستہ کے باغات پائے جاتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں محکمہ زراعت توسیعی کا ایک پستہ کا فارم سریاب فارم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں پستے کے کچھ قدیم درخت اب بھی موجود ہیں اور ہر سال نرسری میں ہزاروں کی تعداد میں پودے اُگائے جاتے ہیں۔
پستے میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: چھلکوں کے بغیر ایک پیالی پستے میں 159 کیلوریز، 5.72 گرام پروٹین، 13 گرام چکنائیاں، 3 گرام فائبر، 7.70 گرام کاربوہائڈریٹس، 34 ملی گرام میگنیشیم، 291 ملی گرام پوٹاشیم، 0.482 ملی گرام وٹامن بی 6 اور 0.247 ملی گرام تھایامن ہوتا ہے۔ ان اجزا میں سے وٹامن بی 6 میٹابولزم اور دماغی نشوونما کیلیے نہایت مفید قرار پایا ہے۔
پستے مختلف طریقوں سے امراض قلب کا خطرہ کم کرتے ہیں اینٹی آکسیڈنٹس کے ساتھ ساتھ یہ گری بلڈ کولیسٹرول میں کمی اور بلڈ پریشر کو بہتر کرسکتی ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہیمختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوتا ہے کہ پستے کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے میں مدد دے سکتے ہیں نقصان دہ کولیسٹرول کے شکار افراد پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پستے کھانے سے کولیسٹرول کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ دن کی 20 فیصد کیلوریز اس گری سے حاصل کرنا کولیسٹرول کی شرح میں 12 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔
پستے میں پروٹین کی معمولی مقدار ہوتی ہے۔ یہ پروٹین آپ کو زیادہ دیر تک پیٹ بھرنے میں مدد کرتا ہے، اس طرح آپ کو جنک فوڈ تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ مزید یہ کہ پستے میں موجود پروٹین پٹھوں کے نئے ٹشوز بنانے میں مدد کرتا ہے، پستہ وزن کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کیلئے ہیں، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی مشورہ کر لیں۔
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.