یورک ایسڈ پر قابو، اجوائن، ادرک، السی کا کردار اہم
ہمارا جسمانی نظام مسلسل اپنا کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تب بھی یہ حرکت میں رہتا ہے جیسے دل کا دھڑکنا، جسم میں دوران خون کا عمل، نظام انہظام کا عمل، دماغ کا کام کرنا، اورسا نس کی آمدو رفت وغیرہ ہم جو بھی غذائی اشیاء کھاتے ہیں، ان میں سے وٹامنز، پروٹین،معدنیات اور کاربوہئیڈریٹ وغیرہ جسم میں جذب ہوجاتے ہیں۔لیکن جو چیزیں جسم کے لئے مضر ہوتی ہیں انسانی جسم جذب نہیں کرتا اور ان کا قدرتی فضلہ بن جاتا ہے۔
ان فضلہ مصنوعات میں سے ایک یورک ایسڈ ہے۔یورک ایسڈ بھی خون میں پایا جانے والا ایک قدرتی فضلہ ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جسم کیمیکلز کو توڑ دیتا ہے جسے پورینز (Purines) کہتے ہیں۔ پورینز کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو میٹابولائز ہونے پر یورک ایسڈ بناتے ہیں۔ پورین کاربن اور نائٹروجن ایٹموں سے بنے مالیکیول ہوتے ہیں۔ پورینز جسم میں بنتے ہیں اور ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ ان کے ٹوٹنے سے ہی خون میں یورک ایسیڈ فضلہ بنتاہے۔ یورک ایسڈ گھل جاتا ہے۔ زیادہ تر یورک ایسڈ پیشاب کے ذریعے جسم میں سے نکل جاتا ہے۔
اگر خوراک میں بہت زیادہ پیورین والی غذائیں استعمال کی جائیں تو خون میں یورک ایسیڈ کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے جسے جسم اتنی جلدی یا تیزی سے نہیں نکال پاتا اور گردے بھی اسے خارج کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو یورک ایسڈ خون میں جمع ہو سکتا ہے۔ جو گُردوں، مثانے، دل اور جگر وغیرہ کو متاثر کرتاہے اور کولیسٹرول اور شوگر کی سطح کو بھی بڑھاتا ہے۔
انسانی جسم میں کچھ فیصد یوریک ایسڈ تو لازمی خون میں شامل رہتاہے۔ جس کی نارمل مقدار 2.4 سے لیکر 6.0 ایم جی تک ہے۔ اگر یوریک ایسڈ لیول کی سطح 7.0 ایم جی سے زیادہ ہوجائے تو جسم کے اعضاء کو نقصان پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے مثانے یا گردوں میں انفیکشن، گُردوں میں پتھری یا گردوں کا ناکارہ ہوجانا، جوڑوں میں درد، جگر کی خرابی، کمر درد، بلڈ پریشر،امراض قلب اور فالج وغیرہ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔جب جسم میں یورک ایسڈ کی زیادتی ہوجائے تو اسے ہائپروریسیمیا کہا جاتا ہے۔ جس سے گاؤٹ نامی بیماری پیدا ہوسکتی ہے جو شدید جوڑوں کا درد ہے۔ اور یورک ایسیڈ کی زیادتی سے خون اور پیشاب بھی تیزابی ہو سکتے ہیں۔عام طور پر لوگوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ جسم میں یوریک ایسڈ بڑھ رہا ہے۔
یورک ایسڈ کئی وجوہات کی بنا پر جسم میں جمع ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:خوراک، موٹاپا یا زیادہ وزن ہونا، اور ذہنی دباؤوغیرہ بعض صحت کی خرابیاں بھی یورک ایسڈ کے اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔جیسے ذیابیطس، گردوں کی بیماری، کچھ ا قسام کے کینسر یا کیموتھراپی، چنبل وغیرہ وراثتی طور پر بھی کچھ افراد میں یورک ایسڈ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
جب یورک ایسیڈ کی مقدار خون میں بڑھ جائے تو جسم کے اہم اعضا متاثر ہوتے ہیں اور ان کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور خطرناک بیماریوں کاسبب بنتا ہے۔کچھ غذاؤں میں پورین اجذاء کی مقدر بہت زیادہ ہوتی ہے اور جب یہ پورین جسم میں جا کر ٹوٹتے ہیں تو خون میں یورک ایسیڈ کی مقدار مٰیں اضافہ ہوجاتا ہے اسلئے ایسی غذاؤں کا استعمال اپنی روزمرّہ کی خوراک میں محدود کریں تاکہ خون میں یورک ایسیڈ کی زیادتی سے محفوظ رہ سکیں۔
پورین سے بھرپورغذاؤں میں جیسے سمندری غذا مچھلی اور شیلفش، سرخ گوشت،مٹن، مغز، کلیجی، پائے، نہاری، گردے، سبزیاں، گوبھی، پالک، سبز مٹر،خشک پھلیاں،کھمبیاں (مشرومز)، دالیں، خشک میوہ جات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام غذائیں ہضم ہونے پرکافی مقدار میں یورک ایسڈ خارج کرتی ہیں۔
عام طور پر پروٹین سے بھرپور غذاؤں کے استعمال سے یورک ایسڈ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شوگر یا میٹھی اشیاء بھی یورک ایسیڈ مین اضافے ایک ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔
میٹھے مشروبات، سوڈا، اور یہاں تک کہ تازہ پھلوں کے جوس فروکٹوز اور گلوکوز پر مشتمل چینی آرٹٰفیشل شگر اورجوس یا دیگر کھانوں میں چینی سے بھی یورک ایسیڈ کی زیادتی ہو سکتی ہے۔ شوگر تیزی سے جسم میں جذب ہونیکی وجہ سے یہ بلڈ شوگر کی سطح کو بلند کرتی ہے اور یورک ایسڈ میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔اس کیلئے بہتر ہے کہ فائبر پر مشتمل غذاؤں کو استعمال کیاجائے۔
کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو جسم میں یورک ایسیڈ کی مقدار مین اضافہ نہیں کرتیں جیسے سیب۔سیب میں پیورین اجزاء کم مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔ اور اس میں شامل میلک ایسڈجسم سے یورک ایسیڈ کو باہر نکالنے میں مدد کرتا ہے۔ اسی طرح لیموں جسم سے یورک ایسیڈ کو باہر نکالنے میں بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اس میں وٹامن سی شامل ہوتا ہے جو جسم سے یورک ایسیٖڈ کے کرسٹلز اور آلودگیوں کو صاف کرتا ہے۔ اجوائن میں شامل صحتمند چکنائی فیٹی ایسیڈ، یورک ایسیڈ کو جسم سے خارج کرنے میں مدد گار ثابت ہوتیہیں۔ گاجر بھی یورک ایسیڈ کے خاتمے کے لئے بہت مفید ہے۔ ان کے علاوہ ٹماٹر، سلاد کے پتے، دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء، پانی، پھلوں کے جوسز، تازہ پھل اور سبز سبزیاں وغیرہ یورک ایسیڈ کو جسم سے خارج کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے پانی زیادہ پئیں کیونکہ کافی مقدار میں پانی یا سیال پینے سے گردوں کو یورک ایسڈ کو پیشاپ کے ذریعے تیزی سے نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے پانی کی بوتل ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔ اور وقتاً فوقتاًچند گھونٹ پانی پینے کی عادت بنائیں۔
جسم میں چربی کی زیادتی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ پٹھوں کے خلیوں کی بہ نسبت چربی کے خلیے زیادہ یورک ایسڈ بنا نے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے زیادہ مقدار میں گردوں کے لیے یورک ایسڈ کو فلٹر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر بہت تیزی سیجسمانی وزن کو کم کیا جائے تو بھی یورک ایسیڈ کی سطح متاثر ہوتی ہے۔
وزن کم کرنیکے لئے ڈائٹنگ سے پرہیز کریں۔ اس کے لئے کسی ماہر طبی معالج سے رجوع کریں۔تاکہ انسو لین کی سطح مناسب رہ سکے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس والیافراد کو خون میں بہت زیادہ انسولین کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ لیکن بہت زیادہ انسولین سے نہ صرف جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اضافی یورک ایسڈ کا سبب بھی بنتی ہے۔
فائبر پر مشتمل غذائیں یورک ایسڈ سے نجات کے لئے بہترین ہیں۔ اس سے بلڈ شوگر اور انسولین کی سطح کو نارمل رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ روزانہ کی خوراک میں تقریباً کم از کم 5 سے 10 گرام ریشہ یعنی فائبر اپنی خوراک میں ضرور شامل کریں۔جیسے: فائبر سے بھرپور تازہ پھل اور سبزیاں کیلے، سیب، خشک پھل،تازہ، منجمد یا خشک پھل، جو، گری دار میوے
ذہنی تناؤ بھی خون مین یورک اسیڈ کے اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔تناؤ، نیند میں کمی، اور ورزش کی کمی سوزش میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ سوزش یورک ایسڈ کی سطح کو بڑھاتی ہے۔اس کیلئے ورزش کی عادت کو اپنائیں اور تناؤ ے بچنیکی کوشش کریں۔
حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرکے یورک ایسیڈ کی زیادتی کو روکا جاسکتاہے جیسے غذا، ورزش، اور دیگر صحت مند طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر اس بیماری پر قابو پایا جاسکتاہے۔ سب سے پہلے تو پانی کا استعمال زیادہ کریں کیونکہ اس سے گردے فلٹر ہوتے ہیں اور یورک ایسیڈ پیشاب کے ذریعے خارج ہوجاتاہے۔ تناؤ سے خود کو محفوظ رکھیں اور بھرپوراور اچھی نیند لیں۔ ورزش کی عادت اپنائیں، متوازن خوراک کا خیال رکھیں اور ایسی غذاؤں کو زیادہ مقدار میں اپنی خوراک میں شامل کرنے سے گریز کریں جو پیورئن اجزاء پر مشتمل ہوں۔
گھروں میں عام استعمال ہونے والے اجزاء یورک ایسڈ کا خاتمہ کرنے کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ ہر گھر کے کچن میں اجوائن لازمی پائی جاتی ہے۔اجوائن ایک چوتھائی چھوٹاچمچ ایک کپ پانی میں پکا کر بطور قہوہ پینا یورک ایسڈ اور اس سے جڑے عوارض سے فوری نجات دلاتا ہے۔
اجوائن کا قہوہ دن میں ایک پینا کافی ہوتا ہے۔ایک پاؤ اجوائن کو لیمن کے پانی میں اچھی طرح بھگو کر خشک کر لیں۔ جب اجوائن خشک ہوجائے تو اس میں آدھ پاؤ کالا نمک اور آدھ پاؤ خوردنی سوڈا (میٹھا سوڈا) ملا کر مرکب بنا لیں۔ دن میں دو بار کھانے کے ایک گھنٹہ بعد نیم گرم پانی کے ساتھ آدھا چھوٹا چمچ کھا لیا جائے۔ تیزابیت، تبخیر، گیس، قبض سمیت یورک ایسڈ کا خاتمہ کرنے کا بہترین آسان اور گھریلو فارمولہ ہے۔
موسم سرما میں اکثر گھروں میں السی کی پنیاں بنانے کا رواج عام ہے۔السی کا عام اور آسان استعمال یہ ہے کہ اسے ہلکا سو بھون کر محفوظ رکھ لیں۔ صبح نہار منہ ایک چمچ السی ایک گلاس نیم گرم پانی میں دو چمچ خالص قدرتی سرکہ ملا کر کھا لیا جائے۔ چند دنوں میں ہی یورک ایسڈ کے عوارض سے نجات مل جائے گی۔ سوہانجنے کے نرم پتوں کو سائے میں خشک کر کے سفوف بنا کر آدھی چمچی نہار منہ نیم گرم پانی میں آدھا لیموں نچوڑ کر کھانے سے بھی یورک ایسڈ کے مسائل سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
ادرک ہمارے کچن کا تقریباً لازمی حصہ مانی جاتی ہے۔ایک گرام ادرک کو ایک پانی میں اچھی طرح پکا کر اس میں خالص شہد کی آدھی چمچی ملا کر پینا بھی یورک ایسڈ کے خاتمے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سبز چائے ایک گرام اور ادرک ایک گرام کو ایک کپ پانی میں پکا کر بطور چائے پینا بھی بے حدمفید ثابت ہوتا ہے۔
سنا مکی کے چند پتے،چند گلاب کی پتیاں اور ایک گرام ادرک ایک کپ پانی میں پکا کر پینا قبض سمیت یورک ایسڈ کے لیے بہت مفید طبی ترکیب ہے۔ آسگند ایک مشہور نبات ہے،اس کا سفوف بنا کر نہار منہ دودھ کے ساتھ کھانے سے بھی یورک ایسڈ اوراس کے پیدا کردہ مسائل جوڑوں کا درد، کمر درد وغیرہ سے مکمل شفاء نصیب ہوتی ہے۔یورک ایسڈ کی زیادتی کے باعث جوڑوں کی سوجن اور درد میں افاقہ کے لیے سورنجاں شیریں ایک تولہ کو سبز دھنیا کے ساتھ پیس کر پیسٹ بنا لیں۔
متاثرہ جگہوں پر لیپ کرنے سے درد اور سوجن سے فوری افاقہ ہوگا۔گاجر، مسمی، سیب،مولی، کھیرا، بند گوبھی، کریلے وغیرہ کا روز مرہ خوراک میں استعمال لازمی طور پر کیا جانا چاہیے۔قبض سے چھٹکاراپانے کے لیے رات سوتے وقت روغن بادام کے چار چمچ نیم گرم دودھ میں ملا کر پینا معمول بنا لیں۔ دھیان رہے اسپغول کے چھلکے کا زیادہ استعمال پیٹ کے منجملہ امراض کا سبب بنتا ہے،لہٰذا اسپغول کا استعمال کبھی کبھار ہی کیا جا نا چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کیلئے ہیں، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی مشورہ کر لیں۔
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.