ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد ذہین کیوں ہوتے ہیں؟
غیرملکی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق دنیا کے 20 فیصد افراد متجسس ہیں اور نئی چیزوں کو کھوجنے یا دریافت کرنے میں باقی لوگوں سے بہتر ہیں۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق شائع کی ہے جس کے مطابق ’ڈسلیکسیا‘ انسانوں کی بقا اور مستقبل میں کامیابی کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈسلیکسیا ایک ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد کو الفاظ کے درست املا یا تلفظ میں بہت مشکل ہوتی ہے یا وہ درست املا و تلفظ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی کے مطابق ڈسلیکسیا میں مبتلا بچے کلاس روم میں موجودگی کے باوجود پڑھنے، لکھنے اور درست املا کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔
ریسرچ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈسلیکسیا کا ایک ارتقائی زاویہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی یہ بیماری کچھ افراد کو ایسی صلاحیت فراہم کرتی ہے جس سے وہ دنیا کو نئے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نئی معلومات اخذ کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق عین ممکن ہے کہ اسی تجسس نے انسانی نسلوں کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہو۔
سائنسدانوں نے بتایا کہ ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان کے پاس جو غیرمعمولی صلاحیت ہوتی ہے اس کے مقابلے میں اُن کی دشواریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
تحقیق میں کہا گیا کہ اگر معاشرہ ڈسلیکسیا کے شکار افراد کو علمی پیرائے کے تناظر میں دیکھے تو انہیں یہ بات سمجھ آسکتی ہے۔
ریسرچ ٹیم کی سربراہ ہیلن ٹیلر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد کے ذہن میں پہلے سے موجود معلومات اور نئی معلومات کے لیے تجسس کی کشمکش جاری رہتی ہے۔
اس کشمکش میں ان کا تجسس جیت جاتا ہے اور وہ کچھ نیا دریافت کرنے، کوئی ایجاد کرنے یا تخلیقی شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اسے استعمال کرنے کے حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
خالص اور معیاری اشیاء خریدنے کیلئے کلک کریں:
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.