شاہ بلوط: خشک میووں میں پھلوں کا بادشاہ
شاہ بلوط ( OAK TREE)کے درخت کو انگریزی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے اور اس نام سے یورپ میں کئی سکول بھی موجود ہیں۔اس درخت کا انگریزی معاشرت اور ادب میں وہی مقام ہے جو ہندوستان میں پیپل یا برگد کے درخت کو حاصل ہے۔
شاہ بلوط ہمیشہ سبز رہنے والا ایک پہاڑی درخت ہے۔جس کے چھال گہرے بادامی رنگ کی ہوتی ہے۔اسکے پتے لگ بھگ پانچ چھ انچ لمبے دوڈھائی انچ چوڑے دندانیداراورآگے سے نوک دار ہوتے ہیں۔اس کے پھل گول ہوتے ہیں۔جس کو شاہ بلوط کہاجاتا ہے، انگریزی میں ہارس چیسٹ نٹ بھی کہتے ہیں۔اورکچھ کے پھل لمبوترے ہوتے ہیں۔بیرونی چھلکا سخت ہوتاہے۔ جس کے نیچے اس کے مغز سے ملا ہوا ایک نازک پوست ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے اس کو جفت بلوط کہاجاتا ہے۔
شاہ بلوط کو ہندی میں سیتاسپاری،سندھی میں شاہ بلوط،انگریزی میں اوک ٹری اور پشتو میں چیڑے کہا جاتا ہے۔شاہ بلوط کے درخت عموماً برفانی علاقوں میں زیادہ پیداہوتے ہیں۔یہ کوہ ہمالیہ میں دریائے سندھ کے کناروں سے لے کر نیپال تک پائے جاتے ہیں۔یونان کو اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ترکی، ایران اور چین میں بھی اس کی اچھی خاصی پیدوار ہوتی ہے۔پاکستان میں یہ شمالی علاقوں خصوصاً فاٹا میں پایا جاتا ہے۔یہ پھل اسم با مسمیٰ ہے اور خشک میوہ جات میں اسے پھلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔
شاہ بلوط کے پھل میں مکمل غذائیت اور متعدد بیماریوں سے بچاؤ کی خصوصیات کی بنا پر 20ویں صدی میں اسے اناج کا درجہ حاصل تھا۔ اس کے پتّے گول چکردار (ترتیب وار) ہوتے ہیں۔ اس کے پھول جھمکوں کی طرح ہوتے ہیں جو موسم بہار میں کِھلتے ہیں۔ اس کے پھل پیالے نما خول میں ہوتے ہیں۔ اس کے ہر پھل میں ایک بیج (کبھی کبھار دو یا تین بھی) نکل آتے ہیں۔ یہ 6سے18 ماہ میں پک جاتا ہے جو اس کی قسم پر منحصر ہے۔
شاہ بلوط کی لکڑی انتہائی پائیدار اور سخت ہوتی ہے۔ اس کی لکڑی خاص طور پر پانی کے جہازوں کی عمارتی بناوٹ اور تعمیرات میں کام آتی ہے۔ نیز گھریلو فرنیچر‘ ریلوے پٹڑی‘ لکڑی کے صندوق‘ اوزاروں کے دستے بنانے میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے بنا فرنیچر برسوں نہیں بلکہ صدیوں چلتا ہے۔
شاہ بلوط میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا: شاہ بلوط خاص طور پر کاربوہائیڈریٹ سے مالا مال ہوتاہے۔ اس میں دیگر گری دار میووں کی نسبت کاربوہائیڈریٹ دوگنا ہوتا ہے۔اس میں شامل چکنائی بھی نہایت عمدہ قسم کی چکنائی ہوتی ہے، اس میں لینولک ایسڈ اور لینولینک ایسڈ جیسے ضروری فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ پوٹاشیم، کیلشیم، آئرن، میگنیشیم اور مینگنیز،وٹامن اے، بی 9،سی، فولک ایسڈ سمیت دیگر مرکبات ہوتے ہیں۔
شاہ بلوط کے طبی فوائد:
کینسر کی شناخت میں معاون: شاہ بلوط کا پھل میں پایا جانے والا ایک کیمیکل سرطانی رسولیوں کی نشاندہی میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔اس میں پائے جانے والے کیمیکل "ایسکیولِن" سے روشن اور چمک دار جیل بنا کر اس سے چھوٹی اور معمولی ترین سرطانی رسولیوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر یہ کیمیکل بہت جلد ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور الٹرا ساؤنڈ کا حصہ بن جائے گا۔ نیویارک سٹی کالج کے ماہرین نے اس پھل پر تحقیق کرکے بتایا ہے کہ شاہ بلوط کے پھل میں موجود کیمیائی مادہ کم روشنی میں بھی کینسر سے متاثر رسولی یا ٹشو کو ظاہر کرسکتا ہے۔ اس طرح کینسر کی شناخت ابتدائی مرحلے میں کرکے ہزاروں لاکھوں زندگیاں بچاسکتا ہے۔ ایسکیولِن نامی یہ کیمیکل بہت سی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال ہورہا ہے۔ اس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جین گِرم کہتے ہیں کہ اس کیمیکل پر مبنی جیل بناکر کینسر تصویر سازی (امیجنگ) میں انقلاب لایا جاسکتا ہے جس سے سرطان کی شناخت میں بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ پودوں سے حاصل شدہ جیل ماحول دوست، بے ضرر اور کم خرچ ہوتاہے۔ عموماً سرطانی رسولیوں کو نیلی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تاہم نیلی روشنی کے مقابلے میں یہ میٹریل ایک جانب تو بہت روشن ہے اور دوسری جانب جب اسے استعمال کیا جائے تو ٹیومر سے منعکس ہونے والی روشنی ایک الگ سمت میں جاتی ہے جس سے سرطان کی شناخت آسان ہوجاتی ہے اور وہ اسکرین پر بہتر طور پر نمودار ہوتا ہے۔ شاہ بلوط کے پھلوں میں ہلکا زہریلا پن بھی ہوتا ہے جو جسم کو متاثر کرسکتا ہے۔ لیکن اس میں نئی دریافت ہونے والی خاصیت نے اسے کینسر کی شناخت کیلیے ایک مضبوط امیدوار بنادیا ہے۔
جلدی امراض کا علاج: شاہ بلوط کے پتے جلدی امراض، اندرونی جلن، سوجن اور دل کی کئی بیماریوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور اب اس کا پھل کینسر کی شناخت میں بھی مدد کرسکے گا۔
دل کے امراض: شاہ بلوط کا پھل دل کے امراض اور شوگر میں انتہائی مفید کردار ادا کرتا ہے۔یہ معدہ کو سٹرونگ رکھنے کے لئے اور بلڈ پریشر کوکنٹرول کرنے میں کافی مفیدہے۔اسکے علاوہ زہنی توازن کو درست اور ہڈیوں کو مضبوط رکھنے میں بھی کافی مفید ہے۔ زخم پر اسکا پوڈر ڈالنے سے زخم فوری طور پر ٹھیک ہو جا تاہے۔
ٹانگوں کی سوجن اور رگیں نیلی پڑنا: ٹانگوں میں درد عموماََ عمر کی زیادتی، ورزش نہ کرنے، زیادہ دیر تک کھڑے رہنے یا موٹاپے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلاوجہ دیر تک کھڑے رہنے سے خون رگوں میں جمع ہونے اور دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔جس سے ٹانگوں میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے اوررگیں نیلی پڑ جاتی ہیں۔اونچی ایڑیوں والے سینڈل یا جوتے پہننے سے بھی شریانیں متاثر ہوتی ہیں اور دل کو واپس خون نہیں پھینک پاتیں۔شاہ بلوط کے درخت سے جو بیج حاصل کئے جاتے ہیں، انہیں کھانے سے ٹانگوں کی رگوں کا سوجنا ختم ہو جاتاہے۔ ہارورڈ میڈیکل سینٹر کے تحقیق کاروں نے ان ہزاروں افراد کا مطالعہ کیا جن کی ٹانگوں میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا تھا اور رگیں نیلی پڑ جاتی تھیں۔ انہیں جب شاہ بلوط کے درخت کے بیج کھلائے تو ان افراد کی ٹانگوں کا ورم نصف کے قریب کم ہوگیا اور کھنچاؤ میں کمی واقع ہوگئی۔
کولیسٹرول کو کنٹرول کرے: شاہ بلوط کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ بلڈ غلوکوز پر بھی اس کا مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ توانائی مہیا کرتا ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس والے افراد کی غذا میں یہ ایک اثاثہ ثابت ہواہے۔اس میں موجود فیٹی ایسڈ امراض قلب کے خطرے کو محدود کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
نظام ہضم کو بہتر بنائے: شاہ بلوط میں کاربوہائیڈریٹ بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو نظام ہضم کو درست کرنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کیلئے یہ ایک بہت اچھی اور متوازن غذا ہے، جو آہستہ آہستہ توانائی فراہم کرتی رہتی ہے۔
جانوروں کی خوراک: گلہریاں خاص طور پر ان پھلوں کو گرمیوں میں اپنے بلوں میں جمع کرتی رہتی ہیں تاکہ سردیوں میں بطور خوراک کام لایا جا سکے۔ دوسرے بے شمار پرندے اور جانور بھی اس پھل کو کھاتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے ضرور مشورہ لیں۔
معیاری اور خالص مصنوعات خریدنے کیلئے کلک کریں:
Leave a comment
Please note, comments need to be approved before they are published.